حقیقت اجاگر کرنے کے لیے نور و تاریکی میں موازنہ

IQNA

انبیاء کی تربیت کا انداز؛ ابراهیم(ع) / 11

حقیقت اجاگر کرنے کے لیے نور و تاریکی میں موازنہ

5:40 - July 05, 2023
خبر کا کوڈ: 3514569
ایکنا تھران: انسان ہمیشہ سے بہتر انتخاب کے لیے چیزوں میں موازنہ کرتا ہے اور یہ فطری اور منطقی طریقہ ہے جس کا نتیجہ بھی عام طور پر مطلوب نکلتا ہے۔

ایکنا نیوز- تمام انسان یکساں معنوی اور نفسیاتی حالت میں نہیں ہوتا، کچھ کام انسان کو اضطراب میں ڈالتا ہے کچھ باعث لذت ہوتا ہے اسی طرح ہر شخص کو منوانے کے لیے بھی طریقہ کار مختلف ہوتا ہے جیسے حضرت ابراهیم (ع) قیاس اور موازنے سے کام لیتے تھے۔

انسان کا استاد درست موازنے یا کمپیر کرنے سے شاگرد کے دماغ کو متحرک اور رہنمائی کرسکتا ہے تاکہ شاگرد خود کار طریقے سے درست راستے کا انتخاب کرسکے۔

انسان دوسروں کے رفتار و کردار کا موازنہ کرکے قوت ضعف و مثبت پہلو جاننے کے علاوہ عزت نفس، خود اعتمادی پیدا کرسکتا ہے۔

امام علی(ع)  نهج البلاغه میں اسی موازنے کے حوالے سے فرماتے ہیں: «شَتَّانَ مَا بَيْنَ عَمَلَيْنِ عَمَلٍ تَذْهَبُ لَذَّتُهُ وَ تَبْقَى تَبِعَتُهُ وَ عَمَلٍ تَذْهَبُ مَئُونَتُهُ وَ يَبْقَى أَجْرُهُ ؛ دو عمل میں فاصلہ کسقدر زیاد ہے: عمل جس کی لذت چلی جاتی ہے مگر سزا باقی رہتی ہے، اور وہ عمل کسی زحمت ختم ہوتئ ہے مگر اجر و بدلہ باقی رہتا ہے.» (نهج البلاغه: حکمت 121)

ابراهیم (ع) بت پرستوں کے مقابل جو انکو اس عمل سے دور کرنے کی کوشش کررہا تھا اسی روش سے استفادہ کرتا تھا، وہ کہتا تھا کہ ایک بے خاصیت بت اور ایک رب جس کی پرستش کامیاب کرتی ہے کیسے برابر ہوسکتا ہے۔

  1. «قَالَ هَلْ يَسْمَعُونَكمُ إِذْ تَدْعُونَ اوْ يَنفَعُونَكُمْ أَوْ يَضُرُّون ؛ کہا: کیا جب اسے پکاتے ہو تو وہ تمھاری آواز سنتا ہے؟! کیا وہ تمھیں نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے؟!» (شعراء:72و 73)

2.« قَالَ أَ فَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكُمْ شَيًا وَ لَا يَضرُكُم ؛ (ابراهيم) نے کہا: «کیا ایسے خدا کی پرستش کرتے ہو جو زرہ برابر نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتا! (نہ فایدے کی امید نہ نقصان کا ڈر !) » (انبیاء:66)

آیت‌الله مکارم شیرازی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: یہ خدا بات کرنے کی طاقت نہیں رکھتے، نه شعور و ادراک ان میں ہے، نه اپنا دفاع کرسکتا ہے اور نہ اپنے بندوں کی حمایت پر قادر ہے پس انکا کیا فایدہ ؟! کسی معبود کی پرستش یا اس کی صلاحیت کے لیے ہے یہ تو بیجان بت ہے جس کو کوئی سود و زیاں نہیں، نہ ان سے خوف کا کوئی نقصان ہے اور اسی لیے ابراہیم نے بتوں کو توڑ کر دکھایا کہ یہ کچھ نہیں کرسکتا۔

ابراهیم نے ان چیزوں کی طرف متوجہ کرنے کے بعد اس کا خدا سے موازنہ کیا اور کہا کہ خداوند متعال (بتوں کے برعکس) سراسر منفعت و فایدے کا حامل ہے:

«قَالَ أَ فَرَءَيْتُم مَّا كُنتُمْ تَعْبُدُونَ أَنتُمْ وَ ءَابَاؤُكُمُ الْأَقْدَمُونَ فَإِنهُّمْ عَدُوٌّ لىِّ إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِينَ الَّذِى خَلَقَنىِ فَهُوَ يهْدِينِ وَ الَّذِى هُوَ يُطْعِمُنىِ وَ يَسْقِينِ وَ إِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ وَ الَّذِى يُمِيتُنىِ ثُمَّ يحْيِينِ وَ الَّذِى أَطْمَعُ أَن يَغْفِرَ لىِ خَطِيَتىِ يَوْمَ الدِّين ؛ کہا: «کیا دیکھ لیا (یہ) چیزیں جن کی تم پرستش کرتے ہو ... تم اور تمھارے اجداد، سب میرا دشمن ہیں (اور میں انکا دشمن)، مگر عالمین کے پروردگار! وہی جس نے مجھے پیدا کیا، اور ہمیشہ میری رہنمائی کرتا ہے، جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے، جب بیمار ہوتا ہو تو مجھے شفا دیتا ہے، جو مجھے موت دیتا اور زندہ کرتا ہے، و اور جس سے مجھے امید ہے کہ یوم حشر میں میرے گناہ کو بخش دے گا!»

اس موازنے کے بعد بت پرستی کی کوئی دلیل باقی نہیں رہتی، اس قدر موثر اور منطقی گفتگو تھی کوئی اس کو رد نہیں کرسکتا تھا۔ مگر افسوس جنکے دل بیمار ہے وہ اپنے عمل کو نہیں چھوڑ سکتا۔/

 

 

نظرات بینندگان
captcha