شریف کتاب میں سنگین بات

IQNA

قرآن کیا ہے؟ / 14

شریف کتاب میں سنگین بات

6:52 - July 16, 2023
خبر کا کوڈ: 3514617
ایکنا تھران: عصر حاضر اور صدیوں سال گذشتہ میں کافی باتیں لکھی اور بولی جاچکی ہیں تاہم قرآن جو تئیس سال میں نازل ہوا ہے اپنے کلام کو سنگین کلام توصیف کرتا ہے۔

ایکنا نیوز- سورہ مزمل کی ابتدائی آیات میں خدا کے کلام کی سنجیدگی اور سنگینی کی بات ہوئی ہیں، آیت 5 میں اس طرح سے بیان ہوتا ہے:« إِنَّا سَنُلْقي‏ عَلَيْكَ قَوْلاً ثَقيلا ؛ کیونکہ جلد ہم تم سنگین کلام القا کریں گے!»(مزمل:5)

علامه طباطبایی تفسیر المیزان میں اس بارے ذیل کی نکات پیش کرتے ہیں:

  1. سنگین کلام معنویت کے رو سے: قرآن اس وجہ سے سنگین کلام ہے کہ اس میں معرفت کے حوالے سے اس قدر سنجیدہ باتیں ہیں جو سب کے لیے آسان نہیں. وہ سمجھ سکتے ہیں جو گناہ تو کیا گناہ کا تصور بھی نہیں کرتے. آیات قرآن کے مطابق ائمه اطهار(ع) ہر گناہ سے پاکیزہ و مبرا ہیں: «إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكم تَطْهِيرًا ؛ اللہ نے ارادہ کیا کہ آپ اهل بيت سے گناہ دور رکھے اور آپ کو پاکیزہ رکھے»(احزاب:33)

بعض اوقاف قرآن کی سنگینی آپ کے چہرے سے واضح ہوجاتے اور لوگ واضح دیکھتے۔

امام علی (ع) اس حوالے سے فرماتے ہیں: جب  سوره مائده نازل ہوا، رسول گرامی اونٹ پر سوار تھے وحی کی وجہ سے اونٹ رک کیا اور انکی کمر خم ہوئی یہانتک کہ قریب تھا کہ اونٹ کی پیٹ زمین سے جالگتے۔

  1. معارف اور اخلاق قرآن پہنچانے کی سنگینی: علامه طباطبایی اس حوالے سے ایک اور آیت کو دلیل لاتے ہیں، خدا آیت 21 سوره حشر میں فرماتا ہے:« لَوْ أَنْزَلْنا هذَا الْقُرْآنَ عَلى‏ جَبَلٍ لَرَأَيْتَهُ خاشِعاً مُتَصَدِّعاً مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَ تِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُون‏ ؛ اگر اس قرآن کو پہاڑ پر نازل کرتے، تو دیکھتے کہ وہ بھی خاشع ہوتے اور خدا کے خوف سے سوراخ ہوتے! یہ مثالیں ہیں جو پیش کرتے ہیں تاکہ لوگ سمجھ سکے. (حشر:21)

 اس آیت میں ایک حقیقت کی طرف اشارہ ہوتا ہے اور یہ ہے کہ  قرآن میں ہدایت کے حوالے سے کوئی کمی نہیں تاہم اگر کوئی ہدایت نہیں ہوتے، تو یہ اسکی کمزوری ہے.

  1. قرآن کا پیغام پہنچانے کی سنگینی: یہ اس وجہ سے سنگین تھا کہ اس پیغام کو پہنچانے میں رسول گرامی کو شدید اذیتیں دی گئیں، مثال کے طور پر:قرآن (معاشرے میں پہنچانے) پر رسول گرامی کو 3 سال شعب ابی طالب میں دوستوں کے محصور کیا گیا. اس عرصے میں حضرت خدیجه کے تمام اموال خرچ ہوگیے، شعب ابی طالب میں کسی کو لوگوں سے لین دین کا حق نہ تھا،

اس راستے میں کانٹے بچھائے گیے، آپ پر گندگیاں ڈالی گیی اور اس قدر اذیت دی گیی کہ آپ نے فرمایا: « ما اوذی نبی مثل ما اوذیت ؛ کسی پیغمبر کو میری طرح اذیت نہ دی گیی.»

نظرات بینندگان
captcha